تحریر: سید ڈاکٹر امجد محمود فلکی
پچھلے سال حج کے بعد اور خصوصاً رمضان سے مکہ اور مدینہ منورہ میں جب اتنا رش بڑھا اور تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور ہوٹل اور پیکجز کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں تو اس وقت بھی میں نے اپنے حج اور عمرہ انڈسٹری کے دوستوں سے کہا تھا کہ یہ کووڈ کا رکا ہوا رش ہے۔ ورنہ مہنگائی اتنی ہے اور یہ ایک سال پہلے کی مہنگائی کی بات کر رہا ہوں جوکہ ہوشربا تھی اور اب والی مہنگائی تو اور زیادہ قاتل مہنگائی ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کو اس وقت بھی کہا تھا کہ ہماری کرنسی کمزور ہونے کے ساتھ عمرہ پر جانے والوں کی قوت سکت کم ہوتی جائے گی اور اس سال حج کے بعد لوگوں کی خلاف توقع جب کہ مجھے تو یہ توقع تھی کہ بہرحال ربیع الاول میں بھی خلاف توقع پاکستان سے لوگ عمرہ پر نہیں گئے۔ جس کی وجہ سے سعودی ایئرلائن نے بار بار ڈسکاؤنٹ آفر کئے جس کا اثر باقی ایئرلائن کے کرایوں پر بھی پڑا۔
جن کو اللہ تعالٰی نے پیسہ سے نوازا ہے وہ تو حج پر چلے جاتے ہیں لیکن عمرہ پر زیادہ تر متوسط طبقہ کے لوگ جاتے ہیں جوکہ اپنا پیسہ پیسہ پائی پائی جوڑ کر عمرہ کی ادائیگی کے لئے جاتے ہیں لیکن آجکل شدید مہنگائی کے دور میں جہاں اپنے دفتر یا کام پر جانے کے لئے فیول یا کرایہ ناقابل برداشت ہوگیا ہے، جہاں گھر کا باورچی خانہ چلانا، بجلی کا بل ادا کرنا مشکل ہوگیا ہے وہاں عمرہ پر جانے کے لئے فی بندہ تین سوا تین لاکھ روپے نکالنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس وجہ سے ربیع الاول میں پاکستان سے بہت کم لوگ عمرہ پر گئے ہیں۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اس مہنگائی کے طوفان کو کم کرے اور عام لوگوں کی زندگی آسان ہو اور جو لوگ مکہ مدینہ جانا چاہتے ہیں، اللہ تعالٰی ان کے لئے آسانیاں فرمائے اور اس پیشہ سے وابستہ لوگوں کے لئے بھی آسانی فرمائے۔ آمین